مولانا خادم حسین رضوی کی موت کورونا وائرس کے باعث ہوئی. ذرائع کا انکشاف
علامہ کو بخار زکام اور سانس میں دشواری کا سامنا تھا لگتا یہی ہے کہ ان کی موت کورنا وائرس کی وجہ سے ہوئی.قریبی ساتھی کی تصدیق‘ ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان کے کورونا ٹیسٹ کے لیے سیمپل لیے تھے نتائج کے بارے میں اعلی حکام ہی آگاہ کرسکتے ہیں. ترجمان شیخ زید
لاہور(نوٹیفیکیشن ہوم اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 نومبر ۔2020ء) تحریک لبیک پاکستان کے بانی مولانا خادم حسین رضوی کی موت کورونا وائرس کے باعث ہوئی اس بات کا انکشاف ان کے قریبی ذرائع نے کیا ہے بتایا گیا ہے کہ 55سالہ مذہبی راہنماءکئی دنوں سے بخار اور زکام میں مبتلا تھے ان کے ایک ساتھی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ دھرنے کے لیے اسلام آباد روانگی سے قبل انہیں زکام اور بخار تھا اسلام آباد کے سردموسم اور ہواﺅں نے رہی سہی کسر نکال دی انہیں کچھ دنوںسے وہ سانس میں دشواری کی شکایت بھی کررہے تھے .
اس سلسلہ میں شیخ زید ہسپتال کے ترجمان سے تصدیق کرنے کے لیے رابط کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی وہ تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر ہیں تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان کے کورونا ٹیسٹ کے لیے سیمپل لیے تھے ان کے نتائج کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان شیخ زید ہسپتال نے کہا کہ اعلی حکام ہی اس سلسلہ میں جواب دے سکتے ہیں. تاہم محکمہ صحت کے معتبر ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ مولانا خادم رضوی کی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار بنے ہیں شیخ زید ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اکبر حسین نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ رات 8 بج کر 48 منٹ پر خادم رضوی کو جب ہسپتال کے ایمرجنسی وراڈ میں لایاگیا تو وہ انتقال کرچکے تھے ڈاکٹر اکبر حسین کے مطابق کسی کو مردہ حالت میں لائے جانے کی صورت میں ہسپتال موت کی وجہ کا تعین نہیں کرسکتا.
ان کے خاندان اور جماعت کی قیادت کی جانب سے ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ڈاکٹراکبر حسین نے کہا کہ اگر ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت دی جاتی تو موت کی درست وجوہات کا تعین کیا جاسکتا تھا. ٹی پی ایل کے ترجمان قاری زبیر نے بھی تصدیق کی ہے کہ پچھلے چند روز سے خادم رضوی کی طبیعت خراب تھی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے خادم رضوی اپنے سخت اندازِ بیان کے ساتھ 2017 کے دوران پاکستان میں توہین رسالتﷺ کے قانون کے حامی بن کر سامنے آئے.
خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو پنجاب کے ضلع اٹک میں نکہ توت میں اجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے جبکہ انہوں نے اپنی بتدائی زندگی کے بارے میں اپنے قریبی لوگوں کو بھی زیادہ نہیں بتایاانہوں نے جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی. علامہ خادم حسین رضوی حافظ قرآن اور شیخ الحدیث تھے اور لاہور میں داتا دربار کے قریب پیر مکی مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کرتے تھے انہوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ 2006 میں گوجرانوالہ کے قریب ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد سے وہیل چیئر پر ہیں علامہ خادم حسین رضوی کی گاڑی راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی تھی.
ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالتﷺ کے قانون کے ایک بڑے حامی تھے ‘جب انہیںمقامی چینلزپر کوریج کو مسلہ درپیش آیا تو انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاﺅنٹ بنائے مولانا خادم حسین رضوی اپنے آپ کو ناموس رسالت ﷺ کا چوکیدارکہہ کر بلاتے تھے